ہمارے عہد کے چہرے بدل گئے یارو
غضب ہے خون کے رشتے بدل گئے یارو

ہمارے اپنے ہوئے غیر، غیر ہیں اپنے
’’روایتوں کے طریقے بدل گئے یارو‘‘

نشان جن پہ لگائے تھے جیتنے کے لئے
نہ جانے کیسے وہ پتّے بدل گئے یارو

بہت غرور تھا ہم کو پرانے سِکّوں پر
بØ+کمِ شاہ وہ سِکّے بدل گئے یارو

ہمارا عکس بھی قاتل ہمیں نظر آیا
ہمارے جب سے عقیدے بدل گئے یارو

کہاں تلاش کرو گے نقوشِ پا میرے
تمام شہر کے رستے بدل گئے یارو

نہ کوئی چور کا کھٹکا نہ غم لٹیروں کا
اندھیری رات کے پہرے بدل گئے یارو

کرے گا اب وہ زمانے سے کیا گِلہ اے فوقؔ
جب اُس کے اپنے ہی سارے بدل گئے یارو